Allama Iqbal Poetry that I Like
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے ۔ منزل نہیں ہے
----
دلِ بینا بھی کر خدا سےطلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ---
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا رازِ خودی فاش
---
تو اے اسیرِ مکاں! لا مکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں
---
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
---
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیر پر آ گیا تو یہی آسماں، زمیں !
----
دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر
---
جُراؑت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قُلزُم خاموش کے اٗسرار
جب تک تو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چیرے
---
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مِری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے۔ فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
---
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخی فکر و کردار کا
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
---
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پہ نثار کیوں
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا، اور تمنائے روشنی!
---
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے، دُھندلا سا ستارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے، دُھندلا سا ستارا تُو ہے
۔۔۔۔
بے خبر! تُو جوہرِ آئینہ ایام ہے
تُو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
۔۔۔۔
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہٗ طوفاں سے کیا
نا خدا تُو، بحر تُو، کشتی بھی تُو، ساحل بھی تُو
۔۔۔
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
----
Comments
Post a Comment